میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہی رہے
پوچھا گھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہو گئیں
بولی کہ اب وہ جھانکنے والے نہیں رہے
اگلا سوال تھا کہ میری نیند کیا ہوئ
بولی کہ تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے
پوچھا کرو گی کیا جب کبھی میں نہیں رہا
بولی یہاں تو تم تم سے بھی اچھے نہیں رہے
آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب میرے سوال
کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے
گو آج تک دیا نہیں تم نے مجھے فریب
پر یہ بھی سچ ہے تم کبھی میرے نہیں رہے
اب مدتوں کے بعد یہ آے ہو دیکھنے
کتنے چراغ ہیں ابھی کتنے نہیں رہے
میں نےکہا مجھے تری یادیں تھی عزیز تھیں
ان کے سوا کبھی کہیں الجھے نہیں رہے
کیا یہ بہت نہیں کہ تیری یاد کے چراغ
اتنے جلے کہ مجھ میں اندھیرے نہیں رہے
کہنے لگی تسلیاں کیوں دے رہے ہو تم
کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے
بہلا نہ پائیں گے یہ کھلونے حروف کے
تم جانتے ہو ہم کوئ بچے نہیں رہے
بولی کریدتے ہو تم اس ڈھیر کو جہاں
بس راکھ رہ گئ ہے شرارے نہیں رہے
میں نے کہا جو ہو سکے تو کرنا ہمیں معاف
تم جیسا چاہتی تھی ہم ویسے نہیں رہے
اب یہ تیری رضا ہے کہ جو چاہے سو کرے
ورنہ کسی کہ کیا کہ ہم اپنے نہیں رہے