شب تو وہ یاں سے روٹھ کے گھر جا کے سو رہے ہم تنگ آ کے جان سے کچھ کھا کے سو رہے پہلے تو کچھ وہ آتے ہی شرما کے سو رہے پھر لطف اٹھے جو ہم انہیں چونکا کے سو رہے کیا میں شب وصال میں گھڑیاں گنا کروں کروٹ بدل کے کیوں مجھے چونکا کے سو رہے اپنی کہی نہ میری سنی شام ہی سے وہ سینہ چھپا کے ہاتھوں سے شرما کے سو رہے کچھ میری جاں کنی کا نہ آیا تمہیں خیال مجھ کو نہ ساتھ سونے کو فرما کے سو رہے ہم بیٹھے آنکھیں دیکھتے ہیں منہ کو تکتے ہیں باتوں میں وہ تو ٹال کے بہلا کے سو رہے مجھ کو اٹھا کے نیچی نگاہوں سے دیکھ کر کچھ دل میں سوچ سوچ کے پچھتا کے سو رہے ان سے شب وصال میں حجت جو بڑھ گئی کچھ دل میں سوچ سوچ کے پچھتا کے سو رہے ہم کیوں بتائیں ہم نے بھی کی صبح جس طرح شب تم تو جاگنے کی قسم کھا کے سو رہے اے بخت خفتہ! اتنی ہی تاثیر تو دکھا اس کی گلی میں پاؤں مرا جا کے سو رہے تا صبح مجھ کو مارے خوشی کے نہ آئی نیند اک ایسی بات وہ مجھے سمجھا کے سو رہے اے دل یہ کیا ہوا تری باتوں نے کیا کیا منہ پھیر کے ادھر کو وہ تنگ آ کے سو رہے سوتوں میں جان ڈال کے انگڑائیاں نہ لو جاگے ہوئے ہو شب کے جو یاں آ کے سو رہے اک دم کو چونکوں شوق سے پھر سوؤں صبح تک اس بات کو زبان ہی پر لا کے سو رہے یہ چھیڑ دیکھو میرے نہ سونے کے واسطے انداز اک نیا مجھے دکھلا کے سو رہے امید خواب میں بھی نہ یوں دیکھنے کی تھی جس پیار سے وہ شب مجھے لپٹا کے سو رہے چھوڑا ہے میں نے رات نہ گھر جانے کو انہیں جب کچھ نہ بس چلا تو وہ جھنجھلا کے سو رہے میں سونے دوں گا آپ کو کب چین سے بھلا ہے یہ تو خوب تم مجھے پھسلا کے سو رہے اچھا میں پاؤں دابوں پہ تم جاگتے رہو یوں کون مانے ہے مجھے بہلا کے سو رہے کیا سونے جاگنے کا نہیں ہم کو امتیاز کروٹ بدل کے آپ جو مچلا کے سو رہے ہے کون سی وہ شب جو سحر تک نہ جاگے ہم کس دن نہ آپ غیر کے گھر جا کے سو رہے ہے بخت خفتہ اور شب تنہائی اور ہم جاگیں نصیب ساتھ جو وہ آ کے سو رہے منظور تھا گھٹانا جو عشرت کی رات کا چوٹی وہ اپنی مجھ سے ہی بندھوا کے سو رہے فرقت کی شب میں جاگنے سے فائدہ نظامؔ بہتر ہے اس سے گر کوئی کچھ کھا کے سو رہے

Теги других блогов: شب وصال شعر ادب